جملہ حقوق

جملہ حقوق بحق صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال گیلانی محفوظ ہیں۔ بغیر قلمی اجازتِ مصنف، مواد کا غیر قانونی استعمال اور/یا نقل سختی سے منع ہے۔ اقتباس اور ربط بغیر کسی تبدیلی کے استعمال کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اصل مواد کا پورا اور واضح حوالہ اقتباس کے ساتھ فراہم کیا جائے۔

منگل، 13 دسمبر، 2011

قُفلِ دَرِ بیوت اللہ

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے‘ برسوں سے نمازی بن نہ سکا
 
افسوس ہے مجھ پر کہ آج ۱۷ نومبر ہو گئی اور میرا قلم ابھی تک ۲۷ جون کی منظر کشی کرنے میں ناکام رہا۔ اُس دن سے آج تک اس قلم کے خالی جسم میں اُس مسجد کی درد ناک چیخیں گونج رہی ہیں مگر اس قلم میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اُسے صفحۂ قرطاس پر اتار سکے۔ افسوس! صد افسوس؟
راقم الحروف نے کہا:
سما نہ پائے اگر وہ کاغذ میں‘ ایسے خامہ کو توڑ دیں ہم

ظہر کا وقت تھا، لاہور کا شہر تھا اور بادشاہی مسجد کا دروازہ تھا۔ دروازے سے بہت دور ہی راستہ بند کیا ہوا تھا۔ کسی عام شخص کو مسجد کی طرف بڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہر شخص وہاں سے مایوس لوٹ رہا تھا۔ صرف سرکاری افسران کو اندر جانے کی اجازت تھی۔ در اصل ان دنوں سکھوں کا تہوار تھا اور مسجد سے پہلے سکھوں کی مَڑھی تھی۔ جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو اس کے صحن میں کوئی پرندہ تک بھی نظر نہ آتا تھا۔ صرف دروازے پر جوتیاں جمع کرنے والے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ وہ مسجد تھی جو سترھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے لیے تعمیر کروائی گئی تھی۔
یہ منظر اتنا درد ناک نہ تھا جتنا اسے ایک انگریز سیاح نے بنا دیا۔ کیا ہی بد قسمتی ہے مسلمانوں کی کہ ایک مسلمان‘ پورے کپڑوں میں بمع سر کو ڈھانپے‘ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا مگر ایک غیر مسلم انگریز‘ ننگے گھٹنوں کے ساتھ‘ مسجد کے صحن میں پھر سکتا ہے۔ ایک مسلمان کو اسلامی ریاست میں عبادت کی اجازت نہیں اور ایک کافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ فقط اپنی خوشی اور تفریح کے لیے مسجد کی تصاویر اتارتا رہے۔ جب ہم نے اُس انگریز سے بات کی تو اس نے اللہ یا عبادت گاہ کے متعلق ایک جملہ بھی نہ کہا اور صرف مغلوں کی خطاطی اور نقاشی کی تعریف کر کے چل دیا۔ اُس کی نظریں تو عمارت کے حسن میں ہی اتنی گم تھیں کہ اُسے اللہ یا اللہ کے عابدوں کی تو خبر ہی نہ ہوئی۔ اور اس کے برا تو یہ تھا کہ سرکاری افسران یہ جواب دے رہے تھے کہ پہلے ہی پاکستان کی بہت بری تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ مشکل سے یہ چند ایک سیاح باہر سے آ جاتے ہیں۔ اگر ان غیر ملکی سیاحوں کو بھی روک دیا گیا تو پاکستان کی عالمی سطح پر مزید بدنامی ہو گی
حضرت! آپ بجا فرما رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ تُرکی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو وہاں سیاحوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ اوقاتِ نماز سے آدھا گھنٹہ قبل و بعد تک مساجد میں نہ جائیں کیونکہ مسلمان اپنی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اور اس سے ان کی عبادت میں خلل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کیا تُرکی بدنام ہو رہا ہے؟ ارے جناب! اس بات کو بھی چھوڑ دیں۔ میں تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ اگر کافر کو چوبیس گھنٹے مسجد میں پھرنے کی اجازت ہے تو مسلمانوں کو اوقاتِ نماز میں بھی کیوں نہیں؟ اسی بد قسمتی کو تو لیاقت علی شاہ صاحب بھی اس دن رو رہے تھے۔ علامہ اقبال کے مزار کی کھڑکی پر آپ کا فارسی قطع مرقوم ہے۔ لیاقت علی شاہ صاحب نے ہماری توجہ اس طرف بھی دلوائی۔
بیا تا کارِ ایں اُمّت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجد ِ شہر
کہ دل در سینۂ مُلّا گدازیم
 
آج بھی‘ علامہ اقبال‘ مسجد کے باہر لیٹے یہی پکار رہے ہیں ’چناں نالیم اندر مسجد ِ شہر‘ مگر آج مسجد کے اندر نالہ و فریاد کرنے والے لوگ ختم ہو گئے ہیں‘ اور جو چند باقی ہیں‘ ان کے لیے داخلہ ممنوع ہے۔ آج مسجدوں کے در و دیوار لوگوں کو پکار رہے ہیں۔ آج محرابِ مسجد سے‘ پورا دن‘ درد ناک آہ و پکار کی آوازیں آتی ہیں جو صرف اذان اور نماز کے وقت تھمتی ہیں۔ آج کا مسلمان اسلاف سے مختلف ہے۔ کل ایسے چند مسلمان تھے کہ جیسے آج کثرت میں ہیں اور آج ایسے چند مسلمان رہ گئے ہیں جو کل کثرت میں تھے۔ بقولِ علامہ اقبال
واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی‘ شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں‘ روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
 
آخر کیوں آج مسجدوں کے دروازوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟ ناجانے کس طرح کوئی زحمت کر کے اوقاتِ نماز میں یہ تالے کھول دیتا ہے۔ کیوں رمضان کے آخری عشرے کے علاوہ مسجدیں سنسان پڑی ہوتی ہیں؟ شاید اسی وجہ سے آج مسجدوں کے دروازے بند رہتے ہیں۔ یا شاید آج کا مسلمان صرف دہشت گردی کو ہی اسلام سمجھ بیٹھا ہے۔ یا شاید ہر کسی کو ہر مسلمان کے چہرے میں دہشت گردی کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بہر حال‘ بات جو بھی ہو‘ کل مسجدوں میں گھوڑے باندھ کر انہیں بند کر دیا جاتا تھا تو آج تالے لگا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ آج نمازیوں کے لیے پہرے دار کا ہونا ضروری ہے۔ حضرت سیّد الطاف حیدر گیلانی ایک دن ذکر کر رہے تھے کہ جب وہ چھوٹے ہوتے تھے تو انڈیا کی مسجدوں کے باہر سپاہیوں کی تصاویر کو بہت حیرت سے دیکھا کرتے تھے مگر آج وہ وقت بھی آن پہنچا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک عبد اپنی عبادت گاہ میں محفوظ نہیں۔ آخر کیوں؟
آخر کیوں ہمارا ایمان اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں؟ آخر کیوں ہم دشمنوں کی بجائے اپنے ہی بھائیوں کو گولی کا نشانہ بناتے ہیں؟ آخر کیوں ہمارے مدرسے بدنام ہو کر اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی سے الگ شناخت قائم کر چکے ہیں؟ آخر کیوں مولوی بدنام ہے اور ہر داڑھی رکھنے والے کو مولوی کہہ کر اُس کی تحقیر کی جاتی ہے؟ آخر کیوں ایک مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہنے میں شرم محسوس کرتا ہے؟ آخر کیوں پاکستان کا نام عالمی سطح پر بدنام ہے؟ اگر پاکستان حقیت میں کچھ نہ ہوتا تو شاید اس کا نام سنتے ہی دنیا کی ہوس میں لت پت امریکی مگرمچھوں کی رالیں نہ ٹپکنا شروع ہو جاتیں۔آخر کیوں پھر بھی ہم ہی برے؟ آخر کیوں ہم اسرائیل کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور اسے پیسے بھی دیتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے ہی بھائیوں کے سینے گولیوں سے چھلنی اور لاشیں خون سے لت پت پڑی ہیں؟ آخر کیوں آج جہاد کا نام بدنام ہو چکا ہے اور ہم سب مل کر اُس کے خلاف ہیں؟ آخر کیوں مسجدیں ویران پڑی ہیں؟ آخر کیوں لوگ آستانوں اور درگاہوں سے بد ظن ہو رہے ہیں؟ آخر کیوں ہم اپنے نبی کی بات پر شک کرتے ہیں؟ آخر کیوں ہم من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کے قول پر بھی تصدیق طلب کرتے ہیں؟ علامہ اقبال تو سارے منظر کو بہت دیر سے ہماری آنکھوں کے سامنے رکھ چکے ہیں مگر ہم ہی غافل ہیں۔
 
دیکھ مسجد میں شکست ِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

وقت است کہ بکشائم میخانۂ رومی باز
پیرانِ حرم دیدم در صحنِ کلیسا مست
 
ایک دن حضرتِ سجادہ نشین دربارِ عالیہ قادریہ منڈیر شریف سیّداں نے رات کے وقت مسجد کے دروازے کھلے دیکھے تو مجھ سے کہنے لگے کہ حضرت سخیٔ کامل سرکار سیّد افضال احمد حسین گیلانی کبھی مسجد کے دروازے بند نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ قدس سرہٗ العزیز فرمایا کرتے تھے کہ یہ اللہ کا گھر ہے! اسے چوبیس گھنٹے کھلا رہنا چاہیے۔ یہ تھے ہمارے اسلاف! اور ہم کیا ہیں؟ بقولِ علامہ اقبال
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
حیدری فقر ہے نے دولت ِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت ِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں