جملہ حقوق

جملہ حقوق بحق صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال گیلانی محفوظ ہیں۔ بغیر قلمی اجازتِ مصنف، مواد کا غیر قانونی استعمال اور/یا نقل سختی سے منع ہے۔ اقتباس اور ربط بغیر کسی تبدیلی کے استعمال کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اصل مواد کا پورا اور واضح حوالہ اقتباس کے ساتھ فراہم کیا جائے۔

منگل، 27 مارچ، 2012

غزل (اثر کہاں ہے کلام اپنے میں چلتے دریا کو موڑ دیں ہم)

اثر کہاں ہے کلام اپنے میں چلتے دریا کو موڑ دیں ہم
اگر زَباں میں اثر جو آئے تو ٹوٹے دل کیوں نہ جوڑ دیں ہم


کلامِ اوّل کی ابتداء ہی جو حرفِ آخر کی سرحدوں پر
تو سوچیں بعد از ادائیگی کہ بڑھائیں اُس کو یا چھوڑ دیں ہم


صبوح میں پاتے ہیں لذّتِ دل وہ رِند اپنے غموں سے چھپ کر
نہ آئے لذّت فراق کی گر ہمیں تو مینا کو پھوڑ دیں ہم


بہت سے گل فام آئے تھے اور بہت سے گل رُخ چلے گئے ہیں
سما نہ پائے اگر وہ کاغذ میں‘ ایسے خامہ کو توڑ دیں ہم


ذہن میں طوفان پل رہے ہیں‘ وہ انقلابِ نظر کے دریا
اگر سلیقہ سخن کا ہو تو ہر ایک قطرہ نچوڑ دیں ہم


تمنا یہ ہے بجر خوشی کے کوئی بھی تحفہ تجھے نہ دیں گے
اگر ہو بس میں‘ عوض ہر آنسو خوشی تجھے سو کروڑ دیں ہم


ہوا جو بیدار اب مکرّم تو رات چھانے کو آ گئی تھی
چلا گیا تھا وہ قافلہ‘ کہتے ننگ ِ رہرو کو چھوڑ دیں ہم

پیر، 12 مارچ، 2012

غزل (کہاں سے آیا کہاں گیا وہ‘ ناجانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ)

 

کہاں سے آیا کہاں گیا وہ‘ نا جانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ
کہاں تھا کھویا، کہاں ملا وہ‘ ناجانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ


وہ میرے اتنے قریب تھا پر مجھے نہ احساس تھا ذرا بھی
کہ جب تلک نہ چلا گیا وہ‘ نا جانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ


یہ کب سے احساس آ گیا ہے‘ وہ آنسوؤں میں چھلک رہا ہے
دیرینہ اِک راز اب کھلا وہ‘ نا جانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ


پکارتا ہوں میں برگ و گل میں‘ اُسے میں صحرا کے دل کے اندر
مگر بہت دور جا چکا وہ‘ نا جانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ


مکرؔم اب کیا سنبھل سکے گا ترا حزیں دل کہ چھوڑ کر وہ
تجھے اکیلا، ہوا جدا وہ‘ نا جانے وہ تھا کہ وہم تھا وہ