اثر کہاں ہے کلام اپنے میں چلتے دریا کو موڑ دیں ہم
اگر زَباں میں اثر جو آئے تو ٹوٹے دل کیوں نہ جوڑ دیں ہم
کلامِ اوّل کی ابتداء ہی جو حرفِ آخر کی سرحدوں پر
تو سوچیں بعد از ادائیگی کہ بڑھائیں اُس کو یا چھوڑ دیں ہم
صبوح میں پاتے ہیں لذّتِ دل وہ رِند اپنے غموں سے چھپ کر
نہ آئے لذّت فراق کی گر ہمیں تو مینا کو پھوڑ دیں ہم
بہت سے گل فام آئے تھے اور بہت سے گل رُخ چلے گئے ہیں
سما نہ پائے اگر وہ کاغذ میں‘ ایسے خامہ کو توڑ دیں ہم
ذہن میں طوفان پل رہے ہیں‘ وہ انقلابِ نظر کے دریا
اگر سلیقہ سخن کا ہو تو ہر ایک قطرہ نچوڑ دیں ہم
تمنا یہ ہے بجر خوشی کے کوئی بھی تحفہ تجھے نہ دیں گے
اگر ہو بس میں‘ عوض ہر آنسو خوشی تجھے سو کروڑ دیں ہم
ہوا جو بیدار اب مکرّم تو رات چھانے کو آ گئی تھی
چلا گیا تھا وہ قافلہ‘ کہتے ننگ ِ رہرو کو چھوڑ دیں ہم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں