جملہ حقوق

جملہ حقوق بحق صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال گیلانی محفوظ ہیں۔ بغیر قلمی اجازتِ مصنف، مواد کا غیر قانونی استعمال اور/یا نقل سختی سے منع ہے۔ اقتباس اور ربط بغیر کسی تبدیلی کے استعمال کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اصل مواد کا پورا اور واضح حوالہ اقتباس کے ساتھ فراہم کیا جائے۔

ہفتہ، 7 جولائی، 2012

مختصر موازنۃ ما بین الفراق و الوصال

مختصر موازنۃ ما بین الفراق و الوصال

تحریر: صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال مکرّم گیلانی

 

فراق اور وصال کے درمیان کیا فرق ہے؟

آخر شعراء کے نزدیک فراق کی ایک گھڑی‘ وصال کی پوری رات سے بھی کیوں بڑی ہوتی ہے؟
جیسا کہ امیر خسرو نے کہا

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یا پھر بقولِ فیضؔ

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سُبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا گراں ٹھہری ہے
اِک دفعہ بکھری تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کیا لب پہ فغاں ٹھہری ہے

اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ جب انسان خوش ہوتا ہے تو عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور گھڑیاں گننا پسند نہیں کرتا۔ جبکہ غم کی حالت میں انسان سوچ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا کیوں کہ غم تو نتیجہ ہی سوچ کا ہے۔ اور اس وقت انسان ان گھڑیوں کی پیمائش شروع کر دیتا ہے اور یوں آنکھوں کے پیمانے لبریز ہو جاتے ہیں۔
جب انسان خوش ہوتا ہے تو سوچ انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور کوئی بھی فیصلہ کسی نفع یا نقصان کے بغیر کیا جاتا ہے۔ یہی خوشی عشق میں ملتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ خوشی انسان کو سیدھے راستے پر چلا سکتی ہے۔
بقولِ اقبال    ؎

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

مگر کبھی کبھی یہ اس کے مخالف بھی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب غصہ کی حالت میں بھی انسان عقل سے پیدل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے غصے کی حالت کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں۔ جبکہ سنجیدگی کی حالت میں انسان عقل کا استعمال کرتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت انسان جذبات سے خالی ہوتا ہے۔ یہ ایک لگ بات ہے کہ سوچ ہی غم کو جنم دیتی ہے اور غم بھی جذبات میں شامل ہوتے ہیں۔

درازیٔ زلف سے یاد آیا کہ حضرت سخیٔ کامل قدس سرہٗ العزیز اکثر جب اشعار پڑھتے تو یہ شعر بھی ان کے لبوں پہ جاری ہوتا    ؎

نہ نکل سکی‘ نہ نکل سکی‘ مری جاں فرشتۂ موت سے
مری جانِ زار پھنسی ہوئی تھی کسی کی زلفِ دراز میں

اور یہیں کوتاہیٔ عمر سے یاد آیا کہ بہادر شاہ ظفرؔ نے کہا    ؎

عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے‘ دو انتظار میں

مندرجہ بالا شعر میں بہادر شاہ ظفرؔ یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جتنی مرضی دراز عمر ہو‘ اس کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یعنی عمرِ دراز الحقیقت چار دن کی عمرِ کوتاہ ہے۔

یوں تو زلف اور عمر میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر جب کسی دو چیزوں کا موازنہ کیا جاتا ہے تو انہیں برابر کر دیا جاتا ہے۔ پھر ان میں جو بڑا نکلے وہ اکبر ہے۔ اسی طرح جب زلفِ کوتاہ کو عمرِ دراز کے برابر کیا جاتا ہے تو وہ زلفِ دراز بن جاتی ہے اور جب عمرِ دراز کو زلفِ کوتاہ کے برابر کیا جاتا ہے تو وہ عمرِ کوتاہ بن جاتی ہے۔ یعنی زلف کو‘ موازنہ کے لیے‘ کھینچ کر لمبا کر دیا جاتا ہے اور عمر کو دبا کر چھوٹا کر دیا جاتا ہے۔ یہ دوسری وجہ سے کہ کیوں شعراء کے نزدیک زلف دراز ہوتی ہے اور عمر دراز ہو کر بھی کوتاہ ہے۔ اور اسی اعتبار سے وصل کی شب دراز ہونے کے باوجود جب موازنۂ شبِ ہجر و وصال میں آتی ہے تو چھوٹی ہو جاتی ہے اور ہجر کی ایک گھڑی‘ وصال کی پوری شب پر غالب آ جاتی ہے۔

مجھے اس بات کا یقین تو نہیں کہ فراق فرق سے نکلا ہے یا نہیں لیکن وصال تو وصل سے نکلا ہے۔ دونوں الفاظ چار حرفی ہیں جبکہ یہ دونوں سہ حرفی الفاظ سے نکلے ہیں۔

وصل سے مراد ہے کسی دو چیزوں کا اس طرح ایک ہو جانا کہ دونوں کی ہستیاں ختم ہو کر ایک نئی چیز کو جنم دیں یا دونوں میں سے ایک کی ہستی ختم ہو جائے اور دوسرے کی ہستی اس میں نمایاں ہو جائے۔ مثال کے طور پر امیر خسرو کا شعر ہی لے لیں جو ابتداء میں درج کیا گیا۔ اس شعر میں

زلف و روزِ وصلت

میں ف اور و کا وصال ہوا ہے اور نئی آواز فُ کی نکلی ہے کہ جس میں ف بھی نمایاں ہوتا ہے اور و بھی نمایاں ہوتا ہے۔ یعنی اگر دو چیزیں ایک ہو جائیں تو ان میں سے ایک ختم نہیں ہوتی بلکہ دونوں ہی ایک دوسرے میں باقی ہو جاتی ہیں۔

بقولِ بیدمؔ وارثی

جو بنا یہاں وہی مٹ گیا، جو مٹا یہاں وہی بن گیا
بیدمؔ یہی اِک رمز ہے اِس عشقِ شعبدہ باز میں

جبکہ اس کے بر عکس فرق سے مراد ہے کسی دو چیزوں کے درمیان اتنی علیحدگی دکھانا کہ ان کا درمیانی فاصلہ عیاں ہو جائے اور ان دونوں میں مماثلت کی حد درجہ تک امید ختم ہو جائے۔

اگر وصل ہو جائے تو وہ وصال کہلاتا ہے اور اگر فرق نکل آئے تو وہ فراق کہلاتا ہے۔ جب وصال ہوتا ہے تو تمام فرق مٹ جاتے ہیں اور قاب قوسین پہ بال برابر فرق بھی  اَوْ اَدْنٰی  کی قربتوں میں گم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ اگر دو چیزوں میں فرق آ جائے تو قربتوں میں بھی فاصلے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ فاصلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا مگر صرف فرق کی وجہ سے یہ طویل ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ تیسری وجہ سے کہ کیوں وصال کی شب‘ فراق کی ایک گھڑی سے بھی چھوٹی نظر آتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں